۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
قیام کے اسباب

حوزہ/ صحرائے کربلا میں امامؑ کی مظلومانہ شہادت اور اتنی بڑی تعداد میں سپاہ یزید کا آپ کے خلاف اعلان جنگ سبب بنا کہ بنی امیہ کے مظالم کے خلاف ہر جگہ آواز اٹھے اور وہ رسوا ہوں اور شجر اسلام ہمیشہ کے لئے سرسبز و شاداب ہو جائے۔

حوزہ نیوز ایجنسیl

تحریر:حجۃ الاسلام والمسلمین عالیجناب مولانا سيد عارف عباس نقوی

جس طرح آپ کے برادر محترم امام حسنؑ نے معاویہ کے ساتھ صلح کی امام حسینؑ نے یزید کی  بیعت کیوں نہ کی؟ ۔ اور مدینہ اور مکہ سےکیوں  نکلے؟ اور کس لئے کوفیوں (ص)ع)جبکہ ان کا مکر و فریب اور ان کی بے وفائی معلوم تھی) کی دعوت کا مثبت جواب دیا؟ اور کس بنا پر شہادت کے راستہ کو اختیار کیا؟

            یہ وہ سوالات ہیں جو کہ امام حسینؑ سے کتبی اور شفاہی طور پر پوچھے گئے ہیں اور آپ نے ان سوالوں کا جواب دیا ہے ان جوابات کی طرف ہم اختصار کے ساتھ اشارہ کر رہے ہیں۔

۱۔ یزید کا  نا اہل   اورعیاش ہونا:

            "ویزید رجل فاسق"۔ یزید ایک فاسق شخص ہے۔

            "ملعن بالفسق"۔ علی الا اعلان برے کاموں کو انجام دیتا ہے۔

            "یشرب الخمر"۔ شراب پیتا ہے۔

            "یلعب بالکلاب والفهود"۔ کتوں اور شیروں کے ساتھ کھیلتا ہے۔

            "ویبغض بقیۃ آل الرسول"۔ اہل بیت G کے ساتھ دشمنی رکھتا ہے۔[1]

            "قاتل نفس المحترمة"۔ بے گناہ افراد کو قتل کرنے والا ہے۔[2]

            "ومثلی لا یبایع مثله"۔ شائستہ نہیں ہے کہ امام حسینAجیسی شخصیت یزید جیسے شخص کی بیعت کرے۔

۲۔ حقیقت اسلام کی نابودی کا خوف

            حضرت امام حسینؑ نے فرمایا: وعلی الاسلام السلام اذ قد بلیت الأمة براع مثل یزید[3] اگر امت اسلام کو یزید جیسا راہنما مل جائے تو اسی وقت اسلام کا کام تمام ہو جائیگا۔

۳۔مقتدر طبقے کی نا اہلی

            "یا فرزدق انّ ھولاءالقوم لزموا طاعة الشیطان"۔اے فرزدق ان لوگوں نے شیطان کی پیروی اور اطاعت کو اپنے لئے ضروری کر لیا ہے۔

            "وترکوا طاعة الرحمان"۔ اور خداوند عالم کی اطاعت اور بندگی کو چھوڑ دیا ہے۔

            "واظهروا الفساد فی الارض"۔ اور زمین پر فساد برپا کر رہے ہیں۔

            "وابطلوا الحدود"۔ اور الہی قوانین کو پامال  کر رہے ہیں۔

            "وشربوا الخمور"۔ اور شراب پی رہے ہیں۔

            "واستأثروا فی اموال الفقراء و المساکین"[4]۔ فقیروں اور محتاجوں کے اموال  پر ظالمانہ قبضہ جما رہے ہیں ۔

            "واحلوا حرام الله و حرموا حلاله"۔ حلال خدا حرام اور حرام خدا کو حلال کر رہے ہیں۔

            "واستأثروا بالفی"[5]۔ اور بیت المال کو صرف اپنے لئے مخصوص کر لیا ہے۔

۴۔ نام خدا کی سر بلندی اور   دین کی مددکرنا

            "و انا اولی من قام بنصرۃ دین"۔ میں (ص)ع)حسین)سب سے لائق فرد ہوں دین خدا کی مدد کے لئے۔

            "و اعزاز شرعه"۔ اور یہ کہ اس کی شریعت کو صاحب عزّت بناؤں۔

            "والجهاد فی سبیله"۔ اور خداوند عالم کی راہ میں جہاد کروں۔

            "لتکون کلمه الله هی العلیا"[6]۔ تاکہ نام پروردگار سربلند ہو۔

۵۔ عراق کے لوگوں کی طرف سے اتمام حجّت

            کئی بار کوفہ کے لوگوں کی طرف سے متعدد خطوط اور قاصد آئے کہ ہم امام اور راہنما نہیں رکھتے ہم چاہتے ہیں کہ آپ کی بیعت کریں، امام حسینؑ نے بھی مسلم بن عقیل کو بھیجا تاکہ کوفہ والوں کو آزمائیں اور وہ وہاں کے حالات سے باخبرہوں  جس وقت کوفہ کے لوگوں نے جناب مسلم سے بیعت کی تو  حجّت شرعی امام پر تمام ہوگئی اور اب ان پر واجب ہو گیا وہ عراق جائیں اسی بنا پر آپ نے فرمایا: هذه کتب اهل الکوفه و رسلهم و قد وجب علی اجابتهم و قام لهم العذر علی عند الله سبحانه"[7] یہ کوفہ کے لوگوں کے خطوط اور ان کے پیغام ہیں جن کا جواب میرے اوپر واجب ہو گیا ہے اور وہ لوگ خدا کے نزدیک میرے اوپر دلیل اور حق رکھتے ہیں۔

            امام(ع) عبداللہ ابن عمر جیسے لوگوں کے جواب میں کہ جنہوں نے آپ کو عراق جانے سے روکا تھا فرماتے ہیں؛ یہ کوفہ کے لوگوں کے خطوط اور ان کی بیعت ہےجوکہ میرے پاس ہے)[8]

۶۔ حکم پیغمبر اکرم(ص)

            پہلا حکم پیغمبر اکرمﷺ کی ایک حدیث تھی، جیسا کہ امام حسینؑ نے ولید بن عتبہ (مدینہ کا حاکم)سے فرمایا:"سمعت جدی رسول الله6یقول ان الخلافة  محرمة علی ولد ابی سفیان"[9] میں نے اپنے جدامجد سے سنا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: خلافت و جانشینی ابو سفیان کی نسل پر حرام ہے(لہذا کس طرح حسینؑ ان کی بیعت کرے)۔

دوسرا حکم پیغمبر اکرمﷺنے امام حسینؑ کو  خواب  میں یا مکاشفہ کی حالت میں فرمایا  جو متعدد جگہوں پر نقل ہوا ہے

پہلی جگہ وہ تھی کہ جس وقت امام حسین نے مدینہ میں چاہا کہ قبر رسول سے الوداع  کریں۔[10]

دوسری جگہ مکہ تھی جس وقت آپ نے چاہا شہر سے نکلیں تو اس وقت محمد بن حنفیہ(ص)ع)آپ کے بھائی) سے فرمایا:"اتانی رسول اللہ بعد فارقتک فقال: یا حسین اخرج فان الله قد شاء ان یراک قتیلا"[11] اس سے ایک روز قبل محمد بن حنفیہ نے امام سے درخواست کی تھی کہ یمن یا ۔۔۔ کہیں اورچلے  جائیں  اور امام نے فرمایا، تمہاری بات کے سلسلے میں غور کروں گا، دوسرےدن جب وہ آئے تو امامؑ سے جواب چاہا تو امامؑ نے فرمایا تمہارے جانے کے بعد پیغمبر اکرم (ص)تشریف لائے اور فرمایا: اے حسین اس شہر سے نکلو کہ خدا چاہتا ہے کہ تمہیں شہید دیکھے۔

۷۔ مکہ کی حرمت کا لحاظ

            اگر امام حسین مدینہ یا مکہ میں رہ جاتے تو قتل ہو جاتے اور حضرت نہیں چاہتے تھے کہ آپ کے خون بہہ جانے سے مکہ کی بے حرمتی ہو جائے اور اسی بنا پر عبد اللہ بن جعفر کے خط کے جواب میں جوکہ انہوں نے امامؑ کو لکھا تھا جس میں انہوں نے امام کو عراق جانے سے روکا تھا فرمایا: میں جہاں کہیں بھی پوشیدہ و نہاں ہوں گا یہ لوگ مجھے قتل کردیں گے۔[12]

            اور ابن عباس کی نصیحت کے جواب میں بھی فرمایا: میرے چچا کے بیٹے خدا کی قسم میں مکہ میں قتل ہونے سے زیادہ عراق میں قتل ہونا پسند کرتا ہوں(تاکہ مکہ کی حرمت پامال نہ ہو)[13]

            اور اس شخص کے جواب میں بھی جس نے مدینہ سے نکلنے کے سبب کے سلسلے میں سوال کیا تھا۔ امامؑ نے فرمایا: چاہتے ہیں کہ میرا خون بہائیں اس لئے نکلا ہوں[14](یہ مطلب اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ یزید نے ولید بن عتبہ کے خط میں لکھا ہوا تھا حسین کے سر کو خط کے ساتھ میرے لئے بھیجو)[15]

            امام حسینؑ نے مکہ میں  حج کے اعمال کو ادھورا چھوڑ دیا اور حج کو عمرہ میں  بدل دیا اور بہت جلدی مکہ سے نکل گئے تاکہ مکہ اور کعبہ کی حرمت و عزّت آپ کا خون بہنے سے پامال نہ ہو۔ امامؑ فرماتے تھے "کہ خدا کی قسم اگر میں کسی غار میں بھی پوشیدہ ہو جاؤں تب بھی مجھے باہر لے آئیں گے تاکہ اپنے مقصد (یعنی میرے قتل) تک پہنچ جائیں۔[16]

۸۔ قیام کے ضروری ہونے پر عقلی دلیل

            اگر امام حسینؑ مکہ یا مدینہ میں رہ جاتے تو قتل ہو جاتے لیکن اگر عراق کی طرف نکل جائیں تو دو چیزوں میں سے ایک چیز (احدی الحسنین) حضرت کے انتظار میں تھی اسی بنا پر فرمایا: ان بینی و بین القوم موعداً اکرہ، ان اخلفهم فان یدفع الله عنا فقدیماً ما انعم علینا و کفی و ان یکن ما لابدمنه ففوز و شهادۃ ان شاء الله"[17]

اس دلیل کا ماحصل یہ ہے کہ اگر لوگ امامؑ کی حمایت کرتے اور یزید کی حکومت ختم ہو جاتی تو یہ اسلام کے مفاد میں ہوتا اور کامیابی حاصل ہو جاتی یہ ایک خدائی نعمت تھی۔ اور اگر لوگ امامؑ کی مدد نہیں کرتے تو حضرت شہید ہو جاتے اور یزید کی حکومت ذلیل و رسوا ہو جاتی اور امام کے خون سے اسلام زندہ ہو جاتا۔

            یعنی صحرائے کربلا میں امامؑ کی مظلومانہ شہادت اور اتنی بڑی تعداد میں سپاہ یزید کا آپ کے خلاف اعلان جنگ سبب بنا کہ بنی امیہ کے مظالم کے خلاف ہر جگہ آواز اٹھے اور وہ رسوا ہوں اور شجر اسلام ہمیشہ کے لئے سرسبز و شاداب ہو جائے۔

۹۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعہ امّت کی اصلاح

            امام حسین اپنے قیام کے سلسلے میں فرماتے ہیں:"انی لم اخرج اشراً ولابطراً ولامفسداً ولاظالماً۔۔۔"میں نے سرکشی، ظلم اور فساد کے لئے قیام نہیں کیا ہے، "وانما خرجت لطلب الاصلاح فی امةجدّی" اور میں نے صرف اپنے نانا کی امت  کی اصلاح کے لئے قیام کیا ہے، "ارید ان امر بالمعروف و انهی عن المنکر" میں چاہتا ہوں کہ امر بہ معروف اور نہی عن المنکر کروں، "واسیر بسیرة جدّی وابی علی بن ابی طالب" اور اپنے نانا اور والد کی سیرت  پر عمل کروں۔ یہ کلام امام حسینA کی وصیت کے وہ جملات ہیں جو کہ انہوں نے اپنے  بھائی محمد بن حنفیہ کو مدینہ میں لکھے تھے ۔ اور اس میں  منفی مقاصد (ص)ع)ظلم و فساد)کو ذات امامت سےکوسوں  دور جانا تھا، اور فقط اپنے مقصد کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ذریعہ امت کی اصلاح اور اپنے نانا اور والد کی سیرت  پر عمل کرنا بتایا تھا۔

۱۰۔ ظالم حاکم کے خلاف قیام کا واجب ہونا

            حضرت سید الشہداء(ع) نے  کوفہ کے بزرگوں کو جو خط لکھا تھا اس میں، اور اپنے اصحاب اور لشکر حر سےخطاب میں بھی پیغمبر اکرم(ص) سے نقل فرماتےاور اس کے ذریعہ برہان پیش کرتے تھے اور پھر اس کو بنی امیہ پر تطبیق دیتے تھے:"من رأی سلطاناً جائراً مستحلاً لحرم الله ناکثاً لعهد الله مخالفاً لسنة رسول الله یعمل فی عباد الله بالاثم والعدوان فلم یغیر علیه بفعل ولاقول کان حقاً علی الله ان یدخله مدخلہ"جو کوئی بھی کسی ایسے ظالم بادشاہ و حاکم کو دیکھے جو کہ حلال خدا کو حرام کرے اور عہد و پیمان خدا کو توڑے اور پیغمبرﷺ کی سیرت  کی مخالفت کرے، لوگوں کے درمیان ظلم و گناہ کرے تو ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ اپنی زبان اور عمل سے اس کی مخالفت کرے اور اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو اس صورت میں خدا پر لازم و ضروری ہے کہ اس کو اس کے مقام (یعنی جہنم میں) داخل کرے[18]

اسی لئے امام حسینؑ نے مدینے سے رخصت ہوتے ہوئے عمومی راستے کا انتخاب کیا تاکہ ہر ایک آپکے قیام اور یزید کی مخالفت سے آگاہ ہوجائے[19] 

۱۱۔ سنّت پیغمبر اور تعلیمات حق کا احیاء اور بدعت کی نابودی

            امام حسینؑ اپنے قیام کے مقاصد کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:"انا ادعوکم الی کتاب الله وسنة نبیه" میں تم لوگوں کو کتاب خدا اور سنت پیغمبرﷺ کی طرف دعوت دیتا ہوں۔

"فان السنة قد امیتت" در حقیقت سنت پیغمبرﷺمردہ ہو چکی ہے۔

"وان البدعة قد احییت" اور بدعتیں زندہ ہو رہی ہیں۔[20]

اور دوسرے مقام پر فرماتے ہیں کہ :

"یسأ لوننی ان اقدم علیهم لما رجوا من احیاء معالم الحق و اماتةالبدع" مجھ سے چاہتے ہیں کہ ان کے پاس جاوں تاکہ تعلیمات حق زندہ ہوں اور بدعتیں اور خرافات ختم ہو جائیں۔[21]

امام حسینؑ حر کے لشکر سے خطاب میں فرماتے ہیں کہ :

"الاترون الی الحق لایعمل به" کیا تم نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔

"والی الباطل لایتناهی عنه" اور کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ باطل کی لگام کو پکڑنے والا کوئی نہیں ہے۔

"لیرغب المؤمن فی لقاءربه حقاً حقاً"تاکہ جو لوگ حقیقی مؤمن ہیں وہ خدا سے ملاقات کے خواہشمند ہوں۔[22]


[1] موسوعۃ کلمات امام حسینؑ، ص۲۷۸

[2]  ایضاً، ص۲۸۳

[3] الفتوح، ج۵، ص۱۷، مقتل الحسین خوارزی، ج۱، ص۱۸۴، موسوعۃ کلمات امام حسینؑ سے نقل کیا ہوا ص۲۸۴

[4] موسوعۃ کلمات امام حسینؑ، ص۳۳۶ (تذکرۃ الخواص سے نقل کیا ہوا ص۲۱۷ اور ۳۷۷ امام حسین کے خط میں بھی یہی مضامین ہیں جو کہ انہوں نے اشراف کوفہ کو لکھا تھا۔

[5] موسوعۃ کلمات امام حسینؑ، ص۱۳۷، بزرگان کوفہ کے خط میں اور ص۳۶۰ میں بھی جو تقریر حر کے لشکر کے لئے کی تھی اور الفتوح میں بھی ج۵، ص۹۱، مقتل خوارزی، ج۱، ص۲۳۴ اور بحار الانوار، ج۴۴، ص۳۸۱

[6] موسوعۃ کلمات امام حسینA، ص۳۳۶۔۳۳۷

[7] معالی السبطین، ج۱، ص۲۴۶، ناسخ التواریخ، ج۲، ص۱۲۲، اسرار الشہادۃ، ص۲۴۷، موسوعہ سے نقل ص۳۲۱

[8] تاریخ ابن عساکر(ترجمۃ الامام الحسینؑ)ص۱۹۲، ح۲۴۶، موسوعہ سے نقل ص۳۳۳

[9] موسوعۃ کلمات امام حسینؑ، ص۲۸۳

[10]بحار الانوار، ج۴۴، ص۳۱۳

[11] موسوعۃ کلمات امام حسینؑ، ص۳۲۹

[12] موسوعۃ الامام حسینؑ، ص۳۳۱

[13] ایضاً، ص۳۱۲

[14] بحار الانوار، ج۴۴، ص۳۱۴

[15] ایضاً، ص۳۱۲

[16] موسوعہ کلمات امام حسینؑ، ص۳۲۴۔ ۳۲۷

[17] ایضاً، ص۳۶۴

[18] ایضاً، ص۳۷۷، تاریخ طبری ج۳، ص۳۰۶، الکامل فی التاریخ، ج۲، ص۵۵۲، احقاق الحق، ج۱۱، ص۶۰۹سے نقل کرتے ہیں۔

[19] ایضاً، ص 300

[20] ایضاً، ص۳۱۵۔ ۳۱۶

[21] ایضاً، ص۳۴۱

[22] بحار الانوار، ج۴۴، ص۱۹۲

تبصرہ ارسال

You are replying to: .